’پتھری بل کے ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی‘

  • شکیل اختر
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فوج کے فیصلے پر ’شدید مایو‎سی‘ کا اظہار کیا

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشنریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فوج کے فیصلے پر ’شدید مایو‎سی‘ کا اظہار کیا

بھارت کی فوج نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پتھری بل فرضی تصادم کے کیس کو بند کر دیا ہے۔

فوج کا کہنا ہے کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں جو ثبوت جمع کیے تھے، اُن کی بنیاد پر ملزم فوجی اہل کاروں کے خلاف پانچ بے قصور افراد کو ہلاک کرنے کے معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں فوج کے بعض اہل کاروں پر پانچ عام شہریوں کو دہشت گرد بتا کر قتل کرنے کا الزام ہے۔

جموں میں فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ تفتیش سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ پتھری بل کے معاملے میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر فوج اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کی تھی۔ ترجمان نے کہا کہ کیس بند کرنے کے بارے میں سری نگر کے جوڈیشل مجسٹریٹ کو مطلع کر دیا گیا ہے۔

ادھر ایمنسٹی انٹرنیشل نے کیس کو بند کرنے کی مذمت کی ہے۔ دلی میں جاری کیے گئے ایک بیان میں ایمنسٹی نے کہا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت حکومتِ ہند انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تیز رفتار، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش کرانے کی پابند ہے: ’حکام حقوقِ انسانی کی سنگین پامالیوں کا ارتکاب کرنے والے فوجی اہل کاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا نوٹس لیں۔‘

ایمنسٹی نے مطالبہ کیا ہے سی بی آئی نے اپنی تفتیش میں جن فوجیوں کو بے قصور افراد کو قتل کرنے کا قصور وار قرار دیا ہے ان کے خلاف بلا تاخیر مقدمہ چلایا جائے۔

ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فوج کے فیصلے پر ’شدید مایو‎سی‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس طرح کا کیس نہیں ہے جسے بند کیا جا سکے: ’اس معاملے کی تفتیش مرکزی تفتیشی بیورو سی بی آئی نے کی تھی۔ فوج کس طرح ان کی تفتیش کو نظر انداز کر سکتی ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ وہ محمکۂ قانون اور ایڈوکیٹ جنرل سے صلاح و مشورے کریں گے کہ اس سلسلے میں کیا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔

مقامی لوگوں کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد اس معاملے کی تفتیش کی گئی اور پانچوں ہلاک شدگان کی لاشوں کا دوبارہ جب جائزہ لیا گیا تو وہ سبھی مقامی باشندے نکلے اور ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

2003 میں اس واقعے کو سی بی آئی کے حوالے کیا گیا۔ سی بی آئی نے اس معاملے کی گہرائی سے تفتیش کرنے کے بعد سیون راشٹریہ رائفلز کے بریگیڈیئر اجے سکسینہ، لفٹیننٹ کرنل برہیندر پرتاپ سنگھ، میجر سوربھ شرما، میجر امیت سکسینہ، اور صوبیدار ادریس خان کے خلاف فرضی مقابلے میں عام شہریوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ملزموں کے خلاف سری نگر کے جوڈیشل مجسریٹ کی عدالت میں مقدمہ شروع ہوا لیکن 2012 میں سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت فوج نے اس معاملے کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے لے لیا اور خود کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کر دی اور اب ایک برس بعد یہ بتایا گیا ہے سی بی آئی نے جو ثبوت جمع کیے تھے، ان کی بنیاد پر ملزموں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

سی بی آئی نے ملزموں کے خلاف جو فرد جرم داخل کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ سکھوں کی ہلاکت کے بعد اس خطے میں تعینات فوجی یونٹ پر مرتکبین کو پکڑنے کے لیے زبردست اعصابی دباؤ تھا اور جس کے نتیجے میں ملزموں نے پتھری بل کے فرضی مقابلے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔